حوزہ نیوز ایجنسیl
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
ماہ رمضان المبارک کے چوبیسویں دن کی دعا
أَللّـهُمَّ اِنّى أَسْئَلُكَ فيهِ ما يُرْضيكَ وَ أَعُـوذُ بِـكَ مِمّـا يُـؤْذيـكَ وَ أَسْئَلُكَ التَّوْفيقَ فيهِ لِاَنْ اُطيعَكَ وَ لاأَعْصيَكَ يـا جَـوادَ السّـآئِلينَ۔
ترجمہ:بار الٰہ! میں اس دن (اور) مہینہ) میں تجھ سے ان چیزوں کی درخواست کرتا ہوں جو تجھے راضی کردیں،اورخدایا!تیری باگاہ ِبیکس پناہ کو جو چیزیں ناپسند ہیں ان سے مجھے بچالے،ترے حضور توفیق کا خواہاں ہوں تاکہ تیری اطاعت میں سرگرم اور تیری نافرمانی سے دور رہ سکوں،اے سائلوں کو حد سے سِوا دینے والے۔
اہم نکات ۱)غیظ و غضب سے بچتے ہوئے رِضا کی تلاش؛۲)عصیان سے گریزاں اطاعت کے راستے میں۔ |
۱–أَللّـهُمَّ اِنّى أَسْئَلُكَ فيهِ ما يُرْضيكَ:
ایک رشتہ دار کے گھر جاتے ہوئے خیال آیا کہ مٹھائی لے لیں، کیا خالی ہاتھ جائیں گے؟ لوگ کیا کہیں گے؟ کیا رشتہ داروں کو ناراض کرنا ہے؟اور میں ایک مٹھائی کی دوکان کے سامنے رک گیا، مٹھائی کی دوکان میں اتنا رش تھا جیسے میٹھائی مفت میں بٹ رہی ہو، لوگ اپنے پیاروں کو راضی کرنے کیلئے مٹھائیاں لے لے کر باہر آرہے تھے ،ایسے میں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو ہر مٹھائی لے کر آنے والے کی طرف لپکتا تھا اور مسواک خریدنے کی درخواست کرتاتھا۔ لیکن لوگ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور کنی کترا کر گزر جاتے تھے‘ مبادا یہ کہ کہیں مٹھائی لے جانے میں دیر نہ ہوجائے اور ان کے اپنے ان سے ناراض نہ ہوجائیں۔اور میں سوچنے لگا۔۔۔۔بندوں کو راضی کرنے کا ہمیں کتنا خیال ہے۔بندوں کو راضی کرنے کیلئے ہم ہزار دو ہزارروپے کی مٹھائیاں خرید سکتے ہیں لیکن اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے دس روپے کی مسواک خریدنا گوارا نہیں کرتے۔لیکن ساتھ ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا آج ہمیں یہ معلوم بھی ہے کہ مسواک رب کو راضی کرنے والی ،رب کو زیادہ خوش کرنے والی چیز ہے،جیسا کہ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ Aکا فرمان ہے: اَلسِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ وَ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ؛ مسواک منہ کے لیے صفائی کا موجب اور اللہ کی رضا کا باعث ہے[1]۔
ہم بندوں کو راضی کرنے کیلئے کثیر رقم خرچ کرکےقیمتی تحفے تحائف اور مٹھائیاں خریدتے ہیں پھر بھی وہ اکثر ہم سےراضی نہیں ہوتے جبکہ ہمارا رب کتنا عظیم ہے اور اس عظیم رب کو راضی کرنا کتنا آسان ہے بلکہ رب کو راضی کرنا تو دنیا کا آسان ترین کام ہے جس کے لیے کوئی کثیر سرمایہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، امیر‘ غریب‘ نادار و فقیر ہر کوئی رب کو راضی کر سکتا ہے۔'' یا سریع الرضا''۔۔ کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسا دو، رب راضی۔۔۔مخلوقات خدا کا خیال رکھو، رب راضی۔۔۔ پڑوسی کا خیال رکھو۔۔۔سلام کرو۔۔۔ غرض چھوٹے چھوٹے اور اچھے اچھے کام کرو اللہ راضی۔۔۔ اہلبیت Eسے مودت ۔۔۔رب راضی۔۔کیونکہ یہ سارے کام اسکے پسندیدہ ہیں۔۔۔۔
۲–وَ أَعُـوذُ بِـكَ مِمّـا يُـؤْذيـكَ:
دنیا میں انسان کو جس خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے، اس میں رخنہ ڈالنے والی ہر چیز مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، تمام انسان اللہ کے بندے ہیں اور بندگی کا تقاضا ہے کہ دن و رات کے چوبیس گھنٹے اور زندگی کا ہر ہر لحظہ اپنے رب کے سامنے حاضری کے احساس کو قوی کریں آخرت کی تیاری کو کسی آن فراموش نہ ہونے دیں، اس لیے کہ بعض عارفین کا قول ہے کہ انسان کی ہر وہ سانس حرام ہے، جو خدا سے غفلت کی حالت میں لی جائے۔ دنیا میں جن امور سے ضرورت کے تحت واسطہ پڑتا ہے، ان میں بھی آزمائش کے طور پر بہت کچھ ایسا ہوتا ہی ہے جو خدا و آخرت سے غافل کر دے، جیسے مال و اولاد وغیرہ، پھر از خود ان چیزوں کو خریدنا اور ان میں لگنا جو کہ اسی مقصد کے تحت وجود میں لائی گئی ہیں کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے۔فائن آرٹس یا فنونِ لطیفہ کے نام سے فی زمانہ بہت سے محرِمات کو حلال سمجھا جانے لگا ہے اور اس پر عقلی دلیلیں بھی دی جاتی ہیں، جب کہ عقل و خرد کے پیدا کرنے والے نے اُن چیزوں کو نہ صرف مہلک اور حرام قرار دیا ہے بلکہ شدید و رسوا کُن عذاب کی وعیدیں بھی بیان فرمائی ہیں۔۔۔۔۔غرض ہر اس کام سے اجتناب ضروی ہے جو رب العزت کی ناراضگی کا سبب بنے۔
۳–وَ أَسْئَلُكَ التَّوْفيقَ فيهِ لِاَنْ اُطيعَكَ وَ لاأَعْصيَكَ:
پروردگار اپنی مخلوق سے بے حد محبت کرتا ہے جس طرح کہ ہر صانع کو اپنی صنعت سے پیار ہوتا ہے، اس نے واجبات و مستحبات و محرومات و مکروہات کے احکام صرف بندوں کی مصلحت اور انھیں نقصان سے بچانے کے لئے معین کئے ہیں ورنہ اُسے نہ کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ ہے اور نہ کسی کی معصیت سے کوئی نقصان ہے، وہ غنی مطلق اور بے نیاز ہے، اس کا مقصد بندوں کے حالات کی اصلاح کرنا اور انہیں فائدہ پہونچانا ہے، اس کے احکام کی نافرمانی کرنا شکرِ منعم اور اطاعتِ مولا کی خلاف ورزی کے علاوہ سفاہت اور حماقت بھی ہے اس لئے کہ یہ اپنے فائدہ کی مخالفت ہے اور اپنے کو نقصان کے حوالے کرنا ہے، اسی طرح معصیت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ یہ دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا باعث ہے، آدمؑ کو ایک ترک اولیٰ پر جنت چھوڑنا پڑی ہے تو ہماری کیا حقیقت ہے۔انسان اپنی زندگی اطاعت کے سائے تلے گزارے یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی توفیق ہے ، اطاعت گزاری کا مطلب یہ ہے کہ: اپنے آپ پر اللہ کا حق پہچان لیں جس نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق دیا، ہمیں عزت دی اور اپنے فضل سے نوازا، فرمانِ بارئ تعالی ٰ ہے: يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ * الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ؛ اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے والوں کو بھی خلق کیاہے۔ شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار بن جاؤ؛ اس پروردگار نے تمہارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ہیں لہذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ہمسر اور مثل نہ بناؤ [2]۔
اللہ کی اطاعت انسان کو بلندیوں پر لے جاتی ہے اور انسانی زندگی کے تمام اقوال، افعال، حرکات و سکنات کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، فرمان باری تعالی ہے: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ* لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ؛کہہ دیجئے کہ میری نماز ،میری عبادتیں ،میری زندگی ،میری موت سب اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے * اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں [3]۔ اپنی زندگی کو اطاعت کے لیے مسخر کرنے والے شخص کی عزت افزائی ہوتی ہے اور وہ ساری مخلوقات میں سے برگزیدہ شخصیات کی رفاقت پاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا *ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا؛ اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائً صدیقین, شہدائ اور صالحین اور یہی بہترین رفقائ ہیں * یہ اللہ کی طرف سے فضل و کرم ہے اور خدا ہر ایک کے حالات کے علم کے لئے کافی ہے[4] ۔
اطاعت گزاری نورِ بصیرت ہے، یہ انسان کو ضائع اور پریشان ہونے سے تحفظ دیتی ہے، انسان کو غفلت، معصیت اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ؛ آپ کی جان کی قسم یہ لوگ گمراہی کے نشہ میں اندھے ہورہے ہیں [5]۔ اللہ کی اطاعت انسان کی سماجی زندگی میں بھی رنگ بھر دیتی ہے، اطاعتِ الہی انسان کو الفت بانٹنے میں مگن کر دیتی ہے، وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ قائم دائم رکھتا ہے، ہمیشہ دوسروں کا فائدہ سوچتا ہے اور دوسروں کے ساتھ نیکی کرتا ہے، اپنے بھائیوں کے ساتھ مانوسیت رکھتا ہے، دوسروں کے لئے دل میں محبت اور سینہ کشادہ رکھتا ہے، اس کا دل کینے اور حسد سے پاک ہوتا ہے، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اس پر ظلم کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ؛ اور ان کے دلوں میں محبّت پیدا کردی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کردیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت نہیں پیدا کرسکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت و محبّت پیدا کردی ہے کہ وہ ہر شے پر غالب اور صاحب حکمت ہے [6]۔
جب کسی کے لئے اطاعت کا دروازہ کھلتا ہے تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے مولا سے گڑگڑاتے ہوئے مانگتا ہے کہ: یا اللہ! اطاعت گزاری پر ثابت قدم رکھ اور ڈھیروں بھلائیاں عطا فرما۔۔۔۔
۴–يـا جَـوادَ السّـآئِلينَ:
اے سائلوں کو حد سے سِوا دینے والے۔۔۔۔ مجھے بھی اپنی معصیت سے دور رکھ اپنی اطاعت کی توفیق دے ،ناپسندہدہ چیزوں سے دور رہ سکوں اسلئے اپنی بارگاہ کی قربت دے اور ایسے کام انجام دوں جو تیری مرضی کے مطابق ہوں۔الٰہی آمین۔
نتائجدعاکا پیغام:1- خشنودئ خدا کی طلب؛2- پروردگار کی اطاعت کی توفیق؛3- مانگنے والے بندوں پر خدا کی عطا و بخشش۔ منتخب پیغام:خدائے متعال کی ا️طاعت اور اسکے فرمان کی تعمیل ایسا بہترین اور زیبندہ ترین عمل ہے کو جو ایک بندہ اپنے مولا کے لیے انجام دے سکتا ہے، یہ دعا اس دعائے امام زمان(عجل) بہت مشابہت رکھتی ہے جسمیں وارد ہے: «أللَّهُمَّ ارْزُقْنا تَوْفيقَ الطّاعَةِ وَ بُعْدَ الْمَعْصِيَةِ؛۔ |